شب گزیدہ
کہنے کو تو
رات کا گہرا سناٹا ہے
چاند کی کرنیں میرا ماتھا چوم رہی ہیں
میری نظروں سے اوجھل ہے
لیکن، جھینگر بول رہا ہے
گھر کے پیچھے ایک سڑک ہے
جس پر ریں ریں چلنے والی
شور مچاتی اک ادھ گاڑی
ہارن دیتی گزر رہی ہے
اور سڑک کے دُوجی جانب
ہجرت کا دُکھ ڈھونے والی
ریل کی سیٹی گُونجے تو
مجھ کو ایسے میں تنہائی
اور بھی کھانے لگتی ہے
یعنی، تیری یاد ستانے لگتی ہے
کاشف حنیف
No comments:
Post a Comment