عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خوشبو
جو لفظ خوشبو نظر سے گزرا تو ذہن میں یہ خیال آیا
یہ ابتدا اس کےذکر کی ہے، ہے جس سے کل کائنات خُوشبو
وہ خوشبو جس کو ہمی سے چن کر، خدا نے ہم پر رسولؐ بھیجا
نہ ہم کو تکلیف ہو ذرا بھی، ہے فکر میں دن و رات خوشبو
بسائے رکھے جو اپنے دل میں، جو اپنی سانسوں کے ساتھ خوشبو
حریص لطف و کرم خدا سے ہے ان پہ یہ التفات خوشبو
جو پائیں خوشبو تو حق ہے ان کا درود ان پر ضرور بھیجیں
سراپا جن کا وجود خوشبو، ہر ایک ہے جن کی بات خوشبو
یہ فاصلہ کیسا دو کماں ہے، جو نور اور نور کے میاں ہے
سمجھ میں آئے تو کیسے آئے یہ نور خوشبو، وہ ذات خوشبو
ہر ایک کو یہ خبر سنا دو کہ بھائی میرا میری ہے خوشبو
غدیر میں یہ ہی سب نے دیکھا کہ ایک خوشبو کے ہاتھ خوشبو
وہ ایک گلشن کہ جس کی خوشبو ہے قید خانوں میں مقتلوں میں
مٹایا جتنا یہ اتنا پھیلی، ہے ایسی یہ با ثبات خوشبو
یہ آج تم پر شبیہ کیسی عنایتیں یوں برس رہی ہیں
کہ ہاتھ میرا ہے اور کوئی، لکھا رہا ہے یہ نعت خوشبو
شبیہ حیدر
No comments:
Post a Comment