Monday 1 July 2024

کہ ہاتھ میرا ہے اور کوئی لکھا رہا ہے یہ نعت خوشبو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

خوشبو


جو لفظ خوشبو نظر سے گزرا تو ذہن میں یہ خیال آیا

یہ ابتدا اس کےذکر کی ہے، ہے جس سے کل کائنات خُوشبو

وہ خوشبو جس کو ہمی سے چن کر، خدا نے ہم پر رسولؐ بھیجا

نہ ہم کو تکلیف ہو ذرا بھی، ہے فکر میں دن و رات خوشبو

بسائے رکھے جو اپنے دل میں، جو اپنی سانسوں کے ساتھ خوشبو

حریص لطف و کرم خدا سے ہے ان پہ یہ التفات خوشبو

جو پائیں خوشبو تو حق ہے ان کا درود ان پر ضرور بھیجیں

سراپا جن کا وجود خوشبو، ہر ایک ہے جن کی بات خوشبو

یہ فاصلہ کیسا دو کماں ہے، جو نور اور نور کے میاں ہے

سمجھ میں آئے تو کیسے آئے یہ نور خوشبو، وہ ذات خوشبو

ہر ایک کو یہ خبر سنا دو کہ بھائی میرا میری ہے خوشبو

غدیر میں یہ ہی سب نے دیکھا کہ ایک خوشبو کے ہاتھ خوشبو

وہ ایک گلشن کہ جس کی خوشبو ہے قید خانوں میں مقتلوں میں

مٹایا جتنا یہ اتنا پھیلی، ہے ایسی یہ با ثبات خوشبو

یہ آج تم پر شبیہ کیسی عنایتیں یوں برس رہی ہیں

کہ ہاتھ میرا ہے اور کوئی، لکھا رہا ہے یہ نعت خوشبو


شبیہ حیدر

No comments:

Post a Comment