عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ شہیدوں کا لہو
ہے شہیدوں کا لہُو خاص عطائے باری
قوم اور فرد کو بھی دیتا ہے اک زیست نئی
ہے رواں جس کی رگوں میں ہے وہ قسمت کا دھنی
یہ شہیدوں کا لہو
یہ شہیدوں کا لہو پھول کھلا دے بن میں
جان پھر ڈال دے اس قوم کے مردہ تن میں
زندگی دیتا ہے یہ قوم کو افراد کو بھی
یہ شہیدوں کا لہو
کام آئے جو رہِ حق میں نہیں مرتا وہی
حکم رب ہے نہ کہے ایسے کو مردہ کوئی
قبر ہے اس کے لیے خُلد کی ایک بارہ دری
یہ شہیدوں کا لہو
حادثے اور مرض موت میں مرنا کیسا
موت برحق ہے تو پھر موت سے ڈرنا کیسا
ہے شہادت کی خبر اپنے لیے خوشخبری
یہ شہیدوں کا لہو
ہے شہیدوں کی توقع یہی ہر بار اس سے
تہنیت دے نہ دے رنج و تاسف نہ کرے
اس شہادت کی تمنا تو رسولوں نے بھی کی
یہ شہیدوں کا لہو
مبتلا ہوکے کسی موذی مرض میں نہ مریں
موت ایسی ہو کہ ہر اہلِ وِلا رشک کرے
ہر محب اور حسینی کی تمنا ہے یہ ہی
یہ شہیدوں کا لہو
سبط جعفر
No comments:
Post a Comment