Thursday 18 July 2024

کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا

ہو جو حاتم کو میسّر یہ نظارا تیرا

کہہ اٹھے دیکھ کے بخشش میں یہ رتبہ تیرا

واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحیٰﷺ تیرا

نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

کچھ بشر ہونے کے ناتے تجھے خود سا جانیں

اور کچھ محض پیامی ہی خدا کا جانیں

اِن کی اوقات ہی کیا ہے کہ یہ اتنا جانیں

فرش والے تِری عظمت کا علو کیا جانیں

خسروا! عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

جو تصور میں تِرا پیکر زیبا دیکھیں

رُوئے والشمس تکیں، مطلع سیما دیکھیں

کیوں بھلا اب وہ کسی اور کا چہرا دیکھیں

تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں

کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

مجھ سے ناچیز پہ ہے تیری عنایت کتنی

تُو نے ہر گام پہ کی میری حمایت کتنی

کیا بتاؤں تِری رحمت میں ہے وسعت کتنی

ایک میں کیا مِرے عصیاں کی حقیقت کتنی

مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا

کئی پشتوں سے غلامی کا یہ رشتہ ہے بحال

یہیں طفلی و جوانی کے بِتائے مہ و سال

اب بُڑھاپے میں خدارا ہمیں یوں در سے نہ ٹال

تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال

جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا

غمِ دوراں سے گھبرائیے، کس سے کہیے

اپنی الجھن کسے بتلائیے، کس سے کہیے

چیر کر دل کسے دکھلائیے، کس سے کہیے

کس کا منہ تکیے، کہاں جائیے، کس سے کہیے

تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا

نذرِ عشاقِ نبیﷺ ہے یہ مرا حرفِ غریب

منبرِ وعظ پر لڑتے رہیں آپس میں خطیب

یہ عقیدہ رہے اللہ کرے مجھ کو نصیب

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب

یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

خوگرِ قربت و دیدار پہ کیسی گزرے

کیا خبر اس کے دلِ زار پہ کیسی گزرے

ہجر میں اس تِرے بیمار پہ کیسی گزرے

دور کیا جانیے بدکار پہ کیسی گزرے

تیرے ہی در پہ مِرے بے کس و تنہا تیرا

تجھ سے ہر چند وہ ہیں قدر و فضائل میں رفیع

کر نصیر آج مگر فکرِ رضا کی توسیع

پاس ہے اس کے شفاعت کا وسیلہ بھی وقیع

تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع

جو مِرا غوث ہے، اور لاڈلا بیٹا تیرا


سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment