عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تڑپ اٹھتا ہے دل، لفظوں میں دہرائی نہیں جاتی
زباں پر کربلا کی داستاں لائی نہیں جاتی
حسینؑ ابنِ علیؑ کے غم میں ہوں دنیا سے بیگانہ
ہجومِ خلق میں بھی میری تنہائی نہیں جاتی
اداسی چھا رہی ہے روح پر شامِ غریباں کی
طبیعت ہے کہ بہلانے سے بہلائی نہیں جاتی
کہا عباسؑ نے افسوس،؛ بازو کٹ گئے میرے
سکینہؑ تک یہ مشکِ آب لے جائی نہیں جاتی
سنا ہے کربلا کی خاک ہے اکسیر سے بڑھ کر
یہ مٹی آنکھ میں لینے سے بینائی نہیں جاتی
جتن ہر دور میں کیا کیا نہ اہلِ شر نے کر دیکھے
مگر زہراؑ کے پیاروں کی پذیرائی نہیں جاتی
دلیل اس سے ہو بڑھ کر کیا شہیدوں کی طہارت پر
کہ میت دفن کی جاتی ہے، نہلائی نہیں جاتی
طمانچے مار لو، خیمے جلا لو، قید میں رکھ لو
علیؑ کے گل رُخوں سے بُوئے زہرائیؑ نہیں جاتی
کہا شبیرؑ نے؛ عباسؑ تم مجھ کو سہارا دو
کہ تنہا لاشِ اکبرؑ مجھ سے دفنائی نہیں جاتی
حُسینیت کو پانا ہے تو ٹکر لے یزیدوں سے
یہ وہ منزل ہے جو لفظوں میں سمجھائی نہیں جاتی
وہ جن چہروں کو زینت غازۂ خاکِ نجف بخشے
دمِ آخر بھی ان چہروں کی زیبائی نہیں جاتی
نصیر آخر عداوت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں
کسی بیمار کو زنجیر پہنائی نہیں جاتی
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment