Saturday, 13 July 2024

جب کربلا میں داخلہ شاہ دیں ہوا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

میدانِ کربلا


جب کربلا میں داخلۂ شاہ دیں ہوا 

دشت بلا نمونۂ خلد بریں ہوا

سر جُھک گیا فلک کا یہ اوج زمیں ہوا

خُورشید محو حُسنِ حسینِؑ حسیں ہوا 

پایا فروغ نیر دیں کے ظہور سے 

جنگل کو چاند لگ گئے زہراؑ کے نور سے 

دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہے 

ذروں میں روشنی تجلی طور ہے 

اک افتاب رخ کا ضیا دور دور ہے 

کوسوں زمین عکس سے دریائے نور ہے 

اللہ رے حُسن طبقۂ عنبر سرشت کا 

میدان کربلا ہے نمونہ بہشت کا 

اترو مسافرو کہ سفر ہو چکا تمام 

کوچ اب نہ ہو گا حشر تلک ہی یہیں مقام 

مقتل یہی زمین ہے یہی مشہد امام 

اونٹوں سے بار اتار کے برپا کرو خیام 

بستر لگاؤ شوق سے اس ارض پاک پر 

چھڑکا ہوا ہے اب بقاء یاں کی خاک پر

اترا یہ کہہ کے کشتئ امت کا نا خدا 

جتنے سوار تھے وہ ہوئے سب پیادہ پا

حضرت نے مسکرا کی ہر ایک سے کہا

دیکھو تو کیا ترائی ہے کیا نہر کیا فضا 

اکبرؑ شگفتہ ہو گئے صحرا کو دیکھ کر 

عباسؑ جھومنے لگے دریا کو دیکھ کر

صحرا پہ ہر طرف شہِ دیں نے نگاہ کی

سب تھم گئی سپاہ شہِ کم سپاہ کی

فرمایا؛ آج چھٹ گئی ایذا راہ کی

ہاں اب پسند کر لو جگہ خیمہ گاہ کی

آگے کہیں نہ جائیں گے اس ارضِ پاک سے

الفت ہماری خاک کو ہے یاں کی خاک سے


میر انیس 

No comments:

Post a Comment