عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تلۂ زینبیہؑ
میں ٹیلے پر کھڑی یہ دیکھتی ہوں
کہ میرا بھائی جو کہتا تھا
وہ پورا ہوا ہے
محاذِ کربلا سر ہو چکا
اور اب
محاذِ شام میرے سامنے ہے
وہ میرے بھائی کا لشکر
کہ جس کا ہر سپاہی
حبیبؑ ابنِ مظاہر سے علی اصغرؑ تلک
خود ایک لشکر تھا
کہ جس کا ہر سپاہی
مِرے بھائی کا چہرہ تھا
وہ میرا بھائی ہی تھا
صبح سے تا عصر جو ہر روپ اور ہر رنگ میں
اللہ کی وحدانیت کی
حد اِمکاں کی ہر ممکن گواہی دے رہا تھا
یہ باطل کو نہیں احساس
جس سر کو جھکانا ان کا مقصد تھا
سرِ نیزہ وہ سر
پہلے سے زیادہ فتح مند و سر کشیدہ ہے
یہ جس کو فتح کہتے ہیں
جلے خیموں کی خاکستر سے زیادہ کچھ نہیں ہے
خبر دے دو یہ باطل کو
کہ حق جب آ چکا باطل کی قسمت میں
تباہی اور فنا ہے
میں ٹیلے پر کھڑی یہ سوچتی ہوں
مجھے اب بھائی بن کر قافلے کے ساتھ جانا ہے
سفر اِس قافلے کا کر بلا کے بعد جاری ہے
وہ حرفِ حق جو اب
بازار اور دربار کی منزل پہ گونجے گا
رسن بستہ اسیروں کی زباں
زنجیر کی آواز
ہر غوغائے باطل کو دبا دے گی
غرورِ بادشاہی کی
ہر اک اکڑی ہوئی گردن
ندامت سے جھکا دے گی
سکینہؑ کی نحیف آواز جب
زندان کے در سے نکل کر
داستانِ کربلا اُس شہر والوں کو سنائے گی
تو اُس کے سامنے باطل کا سارا اقتدار و دبدبہ
مٹّی میں مل کر خاک ہو جائے گا
ہر باطل کا لشکر بے اماں ہو جائے گا
باطل کی قسمت میں تباہی اور فنا ہے
میں ٹیلے پر کھڑی یہ سوچتی ہوں
محاذِ شام سر کرنے
اسیروں کے کھلے سر اور بندھے بازو ہی کافی ہیں
کہ راہِ حق کا راہی کربلا کا قافلہ حق ہے
کہ جس کا سامنا باطل کبھی بھی کر نہیں سکتا
مِرے بھائی! میں ٹیلے پر کھڑی تم کو
تمہارے ساتھ جانے والے
ہر جانباز کو تسلیم کہتی ہوں
عقیدت اور محبت کے
گلِ تحسیں تمہاری نذر کرتی ہوں
مِرے بھائی! محاذِ شام مشکل مرحلہ ہے
تو میرے ساتھ ہی چلنا
تو میرے ساتھ ہی رہنا
تو میرے ساتھ ہی رہنا
شبیہ حیدر
No comments:
Post a Comment