عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کمان ظلم وہ دست خطا سے ملتی ہے
گلے وہ پھول کی خوشبو ہوا سے ملتی ہے
بکھر رہی ہے فضا میں اذانِ کی شبنم
وہ روحِ لحنِ محمدﷺ صبا سے ملتی ہے
سمندروں کو سُکھا دے جو حدتِ لب سے
ہمیں وہ تشنہ لبی نینوا سے ملتی ہے
وفا کے دشت میں قاسمؑ کو دیکھ کر سرورؑ
فصیلِ جسم تمہاری قبا سے ملتی ہے
چراغِ صبر کو تنویر بانٹنے کے لیے
بس ایک رات کی مہلت جفا سے ملتی ہے
بس اک وفا کی مہک ہے جو چند پیاسوں کو
فرات! تیرے کنارے ہوا سے ملتی ہے
!!!کہا حسینؑ نے؛ مجھ کو چھپا لیا اماں
یہ ریت کتنی تمہاری ردا سے ملتی ہے
نصرت زیدی
No comments:
Post a Comment