عجیب شان سے کچھ تیرے درد مند چلے
ہجومِ سنگ ستم میں بھی سر بلند چلے
قدم قدم پہ صلیبوں کے راستے مہکے
کچھ اس جتن سے عزیزانِ ارجمند چلے
فرازِ دار سے اُلجھے تو کہکشاں پہ اُڑے
زمیں کی گود کے پالے بھی فتح مند چلے
بُجھی بُجھی سی تمنا، مِٹی مِٹی سے اُمنگ
ہمارے ساتھ کچھ ایسے بھی دردمند چلے
وہ ایک شخص کہ شب میں تھا آفتاب بکف
اسی کے نام پہ پیمانِ تاشقند چلے
ق
وہ عہد نامہ، وہ قرطاسِ دوستی کی اساس
چلے وقار ابھی ذکرِ تاشقند چلے
وقار خلیل
No comments:
Post a Comment