Tuesday 10 September 2024

کنارے سانس کی سب کشتیاں لگی ہوئی ہیں

 کنارے، سانس کی، سب کشتیاں لگی ہوئی ہیں 

چلے بھی آؤ! کہ اب ہچکیاں لگی ہوئی ہیں 

کِیا گیا نہیں پیدا اگر غلام ہمیں؟ 

تو پھر یہ پاؤں میں کیوں بیڑیاں لگی ہوئی ہیں

کبھی کبھی تو تکبّر اّگلنے لگتی ہیں 

گھروں پہ ناموں کی جو تختیاں لگی ہوئی ہیں 

مِرے لبوں نے تو ان کے بھی ہاتھ چُومے ہیں 

مجھے مٹانے میں جو ہستیاں لگی ہوئی ہیں 

چمن میں اور بھی ہیں گھونسلے پرندوں کے 

مِرے ہی پیچھے، یہ کیوں بجلیاں لگی ہوئی ہیں 

انہیں ضرورتیں ہیں سازگار لمحوں کی 

گُہر بنانے میں جو سیپیاں لگی ہوئی ہیں 

نہیں قصور تو پھر سارے روزناموں میں 

تِرے ہی نام کی کیوں سُرخیاں لگی ہوئی ہیں 

ملا تو وہ ہے مجھے مُسکرا کے محفل میں 

عدُو کے سینے میں کیوں برچھیاں لگی ہوئی ہیں 

تجھے بھی گھیر لیا ہے بُرے نصیبوں نے 

مِری بھی کھوج میں بدبختیاں لگی ہوئی ہیں 

چمن میں پھینکا ہے بارود کس کے ہاتھوں نے

کہ جاں بچانے میں سب تتلیاں لگی ہوئی ہیں 

اگرچہ بھرتی نہیں پیٹ میرے بچوں کا 

یہی بہت ہے کہ مزدوریاں لگی ہوئی ہیں 

کبھی فنا نہیں دیکھی تو، دیکھ آیا کر 

یہاں قریب ہی کچھ ڈھیریاں لگی ہوئی ہیں 

کسی کے چہرے سے آنکھوں کو اب ہٹانا کیا 

لگی ہی رہنے دو غزنی جہاں لگی ہوئی ہیں


محمود غزنی

No comments:

Post a Comment