Sunday 8 September 2024

زخم کیوں دل پہ لگاتے ہو جو بھرنے کے نہیں

 زخم کیوں دل پہ لگاتے ہو جو بھرنے کے نہیں

مٹ گئے نقش وفا کے تو ابھرنے کے نہیں

ہم کو اس اوج شرف تک ہے رسائی مشکل

آپ اس مسند نخوت سے اترنے کے نہیں

ایسا گلشن کی سیاست نے کیا ہے پابند

ہم اسیران قفس آہ بھی کرنے کے نہیں

بڑھ گئی کاکل ہستی کی پریشانی اور

جائیے آپ سے گیسو یہ سنورنے کے نہیں

کتنے سیلاب بلا جھیل چکے ہیں ہم لوگ

اب کسی شورش امواج سے ڈرنے کے نہیں


ظفر احمد صدیقی

No comments:

Post a Comment