زخم کیوں دل پہ لگاتے ہو جو بھرنے کے نہیں
مٹ گئے نقش وفا کے تو ابھرنے کے نہیں
ہم کو اس اوج شرف تک ہے رسائی مشکل
آپ اس مسند نخوت سے اترنے کے نہیں
ایسا گلشن کی سیاست نے کیا ہے پابند
ہم اسیران قفس آہ بھی کرنے کے نہیں
بڑھ گئی کاکل ہستی کی پریشانی اور
جائیے آپ سے گیسو یہ سنورنے کے نہیں
کتنے سیلاب بلا جھیل چکے ہیں ہم لوگ
اب کسی شورش امواج سے ڈرنے کے نہیں
ظفر احمد صدیقی
No comments:
Post a Comment