سپاہی کا خط
جان من میرا انتظار مت کرنا
زندگی ہے تو لوٹ آؤں گا
میں نے سن لی ہے وقت کی فریاد
تیری آواز سن نہیں سکتا
میرے گلشن میں خار ہیں جب تک
پھول الفت کے چن نہیں سکتا
خوان خفلت سے جاگ اٹھا ہوں
فرض نے اس طرح جھنجھوڑا ہے
توڑ ڈالے ہیں میں نے سب رشتے
جب سے رشتہ وطن سے جوڑا ہے
ملک کو اب مری ضرورت ہے
تم سے میں پیار کر نہیں سکتا
کب ملیں گے، کہاں ملیں گے ہم
کوئی اقرار کر نہیں سکتا
جس کی تقدیر میں ہے فتح و ظفر
میں اسی فوج کا سپاہی ہوں
جس کی منزل ہے امن و آزادی
میں اسی قافلے کا راہی ہوں
وقت کی الجھنیں تو سلجھا لوں
تیری زلفوں کو بھی سجا لوں گا
ختم ہو لے یہ دور نفرت کا
پھر محبت کے گیت گا لوں گا
جان من میرا انتظار مت کرنا
زندگی ہے تو لوٹ آؤں گا
تنویر نقوی
No comments:
Post a Comment