Saturday 7 September 2024

سپاہی کا خط جان من میرا انتظار مت کرنا

 سپاہی کا خط


جان من میرا انتظار مت کرنا

زندگی ہے تو لوٹ آؤں گا


میں نے سن لی ہے وقت کی فریاد

تیری آواز سن نہیں سکتا

میرے گلشن میں خار ہیں جب تک

پھول الفت کے چن نہیں سکتا


خوان خفلت سے جاگ اٹھا ہوں

فرض نے اس طرح جھنجھوڑا ہے

توڑ ڈالے ہیں میں نے سب رشتے

جب سے رشتہ وطن سے جوڑا ہے


ملک کو اب مری ضرورت ہے

تم سے میں پیار کر نہیں سکتا

کب ملیں گے، کہاں ملیں گے ہم

کوئی اقرار کر نہیں سکتا


جس کی تقدیر میں ہے فتح و ظفر

میں اسی فوج کا سپاہی ہوں

جس کی منزل ہے امن و آزادی

میں اسی قافلے کا راہی ہوں


وقت کی الجھنیں تو سلجھا لوں

تیری زلفوں کو بھی سجا لوں گا

ختم ہو لے یہ دور نفرت کا

پھر محبت کے گیت گا لوں گا


جان من میرا انتظار مت کرنا

زندگی ہے تو لوٹ آؤں گا


تنویر نقوی

No comments:

Post a Comment