شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
کچھ ہوتا رہے گا یوں ہی ہر سال ندارد
تبت کبھی غائب،۔ کبھی نیپال ندارد
رومال جو ملتے تھے تو تھی رال ندارد
اب رال ٹپکتی ہے تو رومال ندارد
تحقیق کیا ان کا جو شجرہ تو یہ پایا
کچھ یوں ہی سی ننھیال ہے ددھیال ندارد
ہے اس بتِ کافر کا شباب اپنا بڑھاپا
ماضی ہے اُدھر گول اِدھر حال ندارد
تعداد میں ہیں عورتیں مردوں سے زیادہ
قوالیاں موجود ہیں،۔ قوال ندارد
بیوی کی بھی جوتی کے تلے ہو گئے غائب
شوہر کے اگر سر سے ہوئے بال ندارد
ماچس لکھنوی
No comments:
Post a Comment