گر غمِ دل شکست کھا جاتا
پھر مِرا عزم رنگ دِکھلاتا
تم نے رکھا تھا اس بلندی پر
آئینہ⌗ ٹُوٹ کر بکھر جاتا
بے خبر ہے وہ ساری محفل سے
ورنہ زُلفوں کو نہ بِکھراتا
پھر سماں کروٹیں بدلنے لگا
وجد میں پھر ہے کوئی ان داتا
گر نہ ہوتا نشے میں وہ سرشار
جام سے جام یوں نہ ٹکراتا
مجھ کو سمجھا وہ اجنبی کی طرح
وہ مجھے جانتا تو شرماتا
پھر مقیّد ہُوا ہے گھر میں کمال
پھر اسے ہو گیا ہے اندھراتا
فضل اکبر کمال
No comments:
Post a Comment