Monday 9 September 2024

وہی کلام کرے جس کو گفتگو آئے

 وہی کلام کرے جس کو گفتگو آئے

سخن شناس ہے کوئی تو روبرو آئے

ہم اپنا دل لیے بیٹھے ہیں بام پر بے بس

وہ جن کے پاس تھے پیسے وہ چاند چھو آئے

دیے بجھائے ہواؤں نے توڑ دی مینا

برس چکی جو گھٹائیں تو ہم سبو آئے

ابھی سے پھر لیے جاتے ہو کوئے دلبر میں

ابھی تو یار لٹا کر ہیں آبرو آئے

اسی اجاڑ اندھیرا بھرے مکاں میں حسن

میں چاند رات سجاؤں جو یار تو  آئے


حسن اعزاز

No comments:

Post a Comment