افسانۂ حیات کو دُہرا رہا ہوں میں
یوں اپنی عمر رفتہ کو لوٹا رہا ہوں میں
اک اک قدم پہ درسِ وفا دے رہا ہوں میں
یہ کس کی جُستجو ہے کدھر جا رہا ہوں میں
یا رب! کسی کا دام حسیں منتظر نہ ہو
پر شوق کے لگے ہیں اُڑا جا رہا ہوں میں
اس سحر رنگ و بو نے تو دیوانہ کر دیا
دامن کے تار تار کو اُلجھا رہا ہوں میں
راہِ طلب میں دیکھ مِرے دل کی حسرتیں
سائے میں پائے خضر کو سہلا رہا ہوں میں
رستے کی اونچ نیچ سے واقف تو ہوں امیں
ٹھوکر قدم قدم پہ مگر کھا رہا ہوں میں
امین حزیں
No comments:
Post a Comment