Saturday 7 September 2024

شہید ذرا سوچنا زندگی کس لیے ہے

 شہید 


چاند تک پھیلتی روشنی کس لیے ہے

مِرے ہونٹ پر خُون کی تازگی کس لیے ہے

اندھیرے کے صحرا میں کتنے ہی داغوں کی لو جگمگاتی ہے

اور دُور اُفق پر

ہواؤں کے خاکوں میں

اس رنگ کی لہر سی لہلہاتی ہے

جس کو مِرے خُوں نے زندگی بخش دی ہے

جہاں مِری دھرتی کی سرحد سلامت

جہاں میرے ماتھے کا سُورج ابھی تک ہے روشن

لہو کو پہن کر میں تپتے ارادوں کی شدت سے بے تاب

بڑھتی ہوئی آگ کے اس الاؤ میں اُترا

جہاں اب مرے خُون کی سرخ پھولوں کی تپتی مہک سانس لیتی ہے

اب تک شبِ کربلا ہیں مِرے زخم زندہ

درِ خیبر اب تک مِرے ہاتھ میں ریزہ ریزہ

ابھی تک مِرے خُون سے خاک میں معجزے جاگتے ہیں

اسی خُون سے آج نکھرا ہے گُلشن

یہی خُون اب تک ہواؤں میں گھل کر

تجھے دعوت جام دیتا ہے

اب یہ تِرا نام لیتا ہے

شاید یہاں تُو بھی آئے

اندھیرے کے صحرا میں داغوں کی لو

آگ کا یہ الاؤ

تجھے بھی بلا لے، مگر

میری آواز ابھی تک اندھیرے کی دیوار سے

سر پٹختی ہے

در کھول دو

اس صدا کو سُنو

روشنی آنکھ میں جذب کر لو

ستارے چُنو

اور ستاروں کو سُورج کرو

اور کبھی جب تمہیں چاند تک پھیلتی روشنی کی کرن

اپنی جانب بُلائے

سمجھنا کہ چاند تک پھیلتی روشنی کس لیے ہے

ذرا سوچنا

زندگی کس لیے ہے


سرمد صہبائی

No comments:

Post a Comment