اب تیری محبت میں جو بیمار ہے بیمار
جیتا ہے نہ مرتا ہے نہ اِس پار نہ اُس پار
وعدہ کے لیے لب بھی ہلانا تمہیں دُشوار
بُت کی طرح خاموش، نہ اقرار نہ انکار
نکلے جو مریضوں کی عیادت کو وہ گھر سے
کچھ سوچ کے ہر اچھا بھلا بن گیا بیمار
ہے لب پہ ابھی تم، تو ابھی تُو ارے توبہ
کیا آپ کی گُفتار ہے، کیا آپ کی گُفتار
اُف، عرضِ تمنا پہ تِری نیچی نگاہیں
اقرار کا اقرار ہے،۔ انکار کا انکار
اس دور میں انساں کا عجب حال ہے شبر
جینے کا بھی ارمان ہے، جینے سے بھی بیزار
شبر جیلانی قمری
استاد قمر جلالوی کے شاگرد، جنہیں اپنے استاد کی نسبت سے قمری کہلانا پسند تھا۔
No comments:
Post a Comment