دل کی دیوار پہ مٹی کا دِیا جلتا ہے
شام کے ساتھ کوئی راہ تیری تکتا ہے
منتشر سے ہیں خیالات خدا خیر کرے
وہم کہتا ہے کہ؛ پیمانِ وفا ٹوٹا ہے
کوئی تصویر بنائے سے نہیں بن سکتی
خود بخود آئینے میں عکس کوئی اترا ہے
دور منزل ہے پلٹنا بھی نہیں اب ممکن
ہائے کس موڑ پہ اب ساتھ تیرا چھُوٹا ہے
اب کوئی اور نیا زخم نہ دینا اے دوست
دوستی یوں بھی زمانے میں بہت رُسوا ہے
نہ چُھپائے سے چُھپے سوزِ دروں اب حسنٰی
نام لے لے کے تیرا دردِ جگر اُٹھتا ہے
حسنٰی سرور
No comments:
Post a Comment