Wednesday, 4 December 2024

شب سیاہ کا آنچل سرک چکا ہے بہت

 شب سیاہ کا آنچل سرک چکا ہے بہت

اندھیری رات میں جگنو چمک چکا ہے بہت

رئیس شہر! مِرا اور امتحان نہ لے

کہ میرے صبر کا ساغر چھلک چکا ہے بہت

نہ کام آئے گی اب شمع دل کی تابانی

تعلقات کا شعلہ بھڑک چکا ہے بہت

چلے بھی آؤ کہ مل کر منائیں جشن بہار

ہمارے شوق کا غنچہ چٹک چکا ہے بہت

تمہارے رشتے کی اب پرورش نہیں ممکن

کہ میرے دل میں یہ کانٹا کھٹک چکا بہت

ملا نہ کچھ بھی اسے میری خامیوں کا سراغ

وہ میری ذات کی مٹی پھٹک چکا ہے بہت

بتا دے منزل مقصود کا نشاں اس کو

کہ اپنی راہ سے انساں بھٹک چکا ہے بہت

اصول مے کشی معصوم کو سکھائیں نہ آپ

وہ پی چکا ہے بہت اور بہک چکا ہے بہت


معصوم شرقی

No comments:

Post a Comment