Wednesday, 4 December 2024

طوق گردن سے نہ زنجیر سے جی ڈرتا ہے

 طوق گردن سے نہ زنجیر سے جی ڈرتا ہے

ہاں تری زُلفِ گِرہ گیر سے جی ڈرتا ہے

دل تو قائل ہے تِرے لُطف و کرم کا لیکن

اپنی پھُوٹی ہوئی تقدیر سے جی ڈرتا ہے

آپ کی چُپ سے اُلجھتی ہے طبیعت اکثر

آپ کی شوخیٔ تقریر سے جی ڈرتا ہے

کہیں یہ بھی نہ ہو منشائے مشیت کے خلاف

اب تو ہر سعی سے تدبیر سے جی ڈرتا ہے

پہلے جو حرف بصد شوق زباں پر آیا

اب اسی حرف کی تفسیر سے جی ڈرتا ہے

اس کا انجام بھی آخر کہیں تخریب نہ ہو

اس لیے ہر نئی تعمیر سے جی ڈرتا ہے

پہلے کچھ خواب تھے ایسے کہ تھے دہشت کا سبب

اب تو ہر خواب کی تعبیر سے جی ڈرتا ہے

عمر کی عمر گناہوں میں بسر کر ڈالی

اور اب آپ کی تعزیر سے جی ڈرتا ہے

صبر پڑ جائے نہ تجھ پر کہیں مظلوموں کا

ان کی فریاد کی تاثیر سے جی ڈرتا ہے

اس کے پردے میں بڑی تیرگیاں ہیں طالب

اس لیے کثرتِ تنویر سے جی ڈرتا ہے


طالب دہلوی

No comments:

Post a Comment