سفر طویل ہے بارِ حیات کم کر لو
جو ہو سکے تو مجھے بھی شریکِ غم کر لو
کسی کا ذکر تو آئے تمہارے نام کے ساتھ
ورق حیات کا سادہ ہے، کچھ رقم کر لو
اگر یہ شوق کہ دنیا تمہیں سلامی دے
تو پہلے اپنے لیے خود کو محترم کر لو
جو منحصر ہے لہو پر چمن کی زرخیزی
تو پھر ہمارے لہو سے یہ خاک نم کر لو
دوئی کا کرب بڑا جاں گداز ہوتا ہے
تم اپنی ذات میں مجھ کو ابھی سے ضم کر لو
مزاحمت سے نہ پہنچے گا کوئی فیض تمہیں
کٹا لو گردنیں یا پھر سروں کو خم کر لو
نہ ہو گی ہم سے پُرستش اُبھرتے سُورج کی
اب اختیار ہے تم کو کہ سر قلم کر لو
سبک خرام ہیں کتنے ہی راہ میں طالب
بچھڑ نہ جائے کوئی سب کو ہمقدم کر لو
طالب محمود
No comments:
Post a Comment