غم کی گر چاشنی نہیں ہوتی
زندگی زندگی نہیں ہوتی
رُوٹھ جانا تو خیر آساں ہے
پر منانا ہنسی نہیں ہوتی
دل لگا کر سمجھ میں آیا ہے
یہ کوئی دل لگی نہیں ہوتی
بیخودی سے جو ہمکنار ہوئے
وہ خودی آگہی نہیں ہوتی
آہ جو عرش تک پہنچ نہ سکے
دل سے نکلی ہوئی نہیں ہوتی
حُسن کو عشق ہی نے دی ہے کشش
چاند میں روشنی نہیں ہوتی
برق بھی کوندتی تو ہے لیکن
ان کی انگڑائی سی نہیں ہوتی
پھُول روتے ہیں ساری رات فہیم
اوس کی یہ تری نہیں ہوتی
فہیم امروہوی
No comments:
Post a Comment