بے ضمیری کا پتہ دیتا رہا
ظرف تھا خالی صدا دیتا رہا
دیکھنے کی ہم نے زحمت ہی نہ کی
ہاتھ میں وہ آئینہ دیتا رہا
چشم نم رنج و محن کے ساتھ ساتھ
وقت ہم کو تجربہ دیتا رہا
اور کیا کرتا غریبوں کا علاج
پڑھ کے پانی پر دوا دیتا رہا
سن کے وہ کرتے رہے تھے ان سنی
پھر بھی میں ان کو سدا دیتا رہا
اے صدا مجھ کو تو بس میرا یقیں
ہر قدم پر حوصلہ دیتا رہا
صدا نیوتنوی
No comments:
Post a Comment