Wednesday, 4 December 2024

بے ضمیری کا پتہ دیتا رہا

 بے ضمیری کا پتہ دیتا رہا

ظرف تھا خالی صدا دیتا رہا

دیکھنے کی ہم نے زحمت ہی نہ کی

ہاتھ میں وہ آئینہ دیتا رہا

چشم نم رنج و محن کے ساتھ ساتھ

وقت ہم کو تجربہ دیتا رہا

اور کیا کرتا غریبوں کا علاج

پڑھ کے پانی پر دوا دیتا رہا

سن کے وہ کرتے رہے تھے ان سنی

پھر بھی میں ان کو سدا دیتا رہا

اے صدا مجھ کو تو بس میرا یقیں

ہر قدم پر حوصلہ دیتا رہا


صدا نیوتنوی

No comments:

Post a Comment