لرزش سے اپنی کام لیا ہے کبھی کبھی
دامن کسی کا تھام لیا ہے کبھی کبھی
دل سے مٹا کے حسرت و ارماں کے سب نشاں
دل سے بھی انتقام لیا ہے کبھی کبھی
ساغر نے میکدے میں کیا ہے مِرا طواف
ساقی کا بھی سلام لیا ہے کبھی کبھی
تقدیر کا اگرچہ کہ ہے فیصلہ اٹل
تدبیر سے بھی کام لیا ہے کبھی کبھی
منزل سے دور دور پڑے ہیں کبھی قدم
منزل نے گام گام لیا ہے کبھی کبھی
توبہ کا بھی لحاظ ہے، ساقی کا پاس بھی
دانستہ خالی جام لیا ہے کبھی کبھی
آزاد! ظرفِ دوست کا لینے کو امتحان
کچھ مصلحت سے کام لیا ہے کبھی کبھی
آزاد ساحری
No comments:
Post a Comment