Wednesday, 4 December 2024

لرزش سے اپنی کام لیا ہے کبھی کبھی

 لرزش سے اپنی کام لیا ہے کبھی کبھی

دامن کسی کا تھام لیا ہے کبھی کبھی

دل سے مٹا کے حسرت و ارماں کے سب نشاں

دل سے بھی انتقام لیا ہے کبھی کبھی

ساغر نے میکدے میں کیا ہے مِرا طواف

ساقی کا بھی سلام لیا ہے کبھی کبھی

تقدیر کا اگرچہ کہ ہے فیصلہ اٹل

تدبیر سے بھی کام لیا ہے کبھی کبھی

منزل سے دور دور پڑے ہیں کبھی قدم

منزل نے گام گام لیا ہے کبھی کبھی

توبہ کا بھی لحاظ ہے، ساقی کا پاس بھی

دانستہ خالی جام لیا ہے کبھی کبھی

آزاد! ظرفِ دوست کا لینے کو امتحان

کچھ مصلحت سے کام لیا ہے کبھی کبھی


آزاد ساحری

No comments:

Post a Comment