رسوائی
سمجھ میں نہیں آتا مجھ کو یہاں
کسے دوست سمجھوں
کسے دشمناں
عجب شہر ہے
شہرِ آشفتگاں
کبھی پھول جھڑتے ہیں لب سے یہاں
کبھی لفظ تیروں سے چبھتے یہاں
اس شہر کی بھی عجب ریت ہے
ملتی نہیں کیوں
کہیں پریت ہے
مجھے تو سمجھ کچھ بھی آتا نہیں
یہ ہے دوستی کہ ہے دشمنی
کبھی سر پہ اپنے بٹھایا گیا
کبھی سر سے یوں ہی گرایا گیا
عجب شہر ہے
شہر آشفتگاں
یہاں قدر ہوتی ہے ان کی ہی بس
جنہیں چاپلوسی کا آتا ہنر
طلعت پروین
No comments:
Post a Comment