موسم گل ہے گھٹا ہے جام ہے
انتظار ساقیٔ گلفام ہے
ایک ساقی ایک مے اک جام ہے
پھر یہ کیسا فرق خاص و عام ہے
غم تو ہے اس واسطے مجھ کو عزیز
یہ تِرا بخشا ہوا انعام ہے
موت نے آ کر مداوا کر دیا
اب تِرے بیمار کو آرام ہے
جان تو آ کے پروانوں نے دی
شمع پر بے کار ہی الزام ہے
توڑ ڈالا اس نے پیمانِ وفا
خواہشِ دل اب تِرا کیا کام ہے
پیش آتا ہے مقدر کا لکھا
گردش دوراں عبث بدنام ہے
حادثوں سے کیسا گھبرانا نصیر
زندگی تو حادثوں کا نام ہے
نصیر انصاری
No comments:
Post a Comment