اس آتش خموش کو شعلہ بنا نہ دے
چنگاریوں کے ڈھیر کو کوئی ہوا نہ دے
مشکل سے کچھ ہوا ہے میسر مجھے سکوں
ماضی کا کوئی درد مجھے پھر جگا نہ دے
گھر پھونکنے سے پہلے مِرا تو یہ سوچ لے
شعلہ کہیں یہ تیرے بھی گھر کو جلا نہ دے
طوفاں نفس نفس ہے قیامت قدم قدم
جب زندگی یہی ہے تو اس کی دعا نہ دے
اک شمع آرزو ہے ہماری انیس غم
ہے خوف تند جھونکا اسے بھی بجھا نہ دے
ہم جس کے راستے میں بچھاتے ہیں آج پھول
وہ کل ہماری راہ میں کانٹے بچھا نہ دے
معصوم نفرتوں کا یہ پھیلا ہوا غبار
ڈر ہے کہ میرا نقشِ محبت مٹا نہ دے
معصوم شرقی
No comments:
Post a Comment