Tuesday, 3 December 2024

اس آتش خموش کو شعلہ بنا نہ دے

  اس آتش خموش کو شعلہ بنا نہ دے

چنگاریوں کے ڈھیر کو کوئی ہوا نہ دے

مشکل سے کچھ ہوا ہے میسر مجھے سکوں

ماضی کا کوئی درد مجھے پھر جگا نہ دے

گھر پھونکنے سے پہلے مِرا تو یہ سوچ لے

شعلہ کہیں یہ تیرے بھی گھر کو جلا نہ دے

طوفاں نفس نفس ہے قیامت قدم قدم

جب زندگی یہی ہے تو اس کی دعا نہ دے

اک شمع آرزو ہے ہماری انیس غم

ہے خوف تند جھونکا اسے بھی بجھا نہ دے

ہم جس کے راستے میں بچھاتے ہیں آج پھول

وہ کل ہماری راہ میں کانٹے بچھا نہ دے

معصوم نفرتوں کا یہ پھیلا ہوا غبار

ڈر ہے کہ میرا نقشِ محبت مٹا نہ دے


معصوم شرقی

No comments:

Post a Comment