اشک پلکوں پر اٹک کر رہ گئے
قافلے رستے میں تھک کر رہ گئے
بجھ گئے جل جل کے آشا کے دیے
رات جگنو سے چمک کر رہ گئے
کوئی ان کا پوچھنے والا نہ تھا
پھل درختوں پر جو پک کر رہ گئے
پھول کا تحفہ تو پہنچا ہاتھ میں
خار آنکھوں میں کھٹک کر رہ گئے
تھی رسائی جن کی وہ سورج بنے
نارسا ذرے دمک کر رہ گئے
سوکھے ہونٹوں تک نہ پہنچا ایک بھی
جام کتنے ہی چھنک کر رہ گئے
راہ تو سیدھی اسیر اس گھر کی ہے
لوگ جانے کیوں بھٹک کر رہ گئے
اسیر جبلپوری
No comments:
Post a Comment