Thursday, 1 May 2025

اشک پلکوں پر اٹک کر رہ گئے

 اشک پلکوں پر اٹک کر رہ گئے

قافلے رستے میں تھک کر رہ گئے

بجھ گئے جل جل کے آشا کے دیے

رات جگنو سے چمک کر رہ گئے

کوئی ان کا پوچھنے والا نہ تھا

پھل درختوں پر جو پک کر رہ گئے

پھول کا تحفہ تو پہنچا ہاتھ میں

خار آنکھوں میں کھٹک کر رہ گئے

تھی رسائی جن کی وہ سورج بنے

نارسا ذرے دمک کر رہ گئے

سوکھے ہونٹوں تک نہ پہنچا ایک بھی

جام کتنے ہی چھنک کر رہ گئے

راہ تو سیدھی اسیر اس گھر کی ہے

لوگ جانے کیوں بھٹک کر رہ گئے


اسیر جبلپوری

No comments:

Post a Comment