Thursday, 1 May 2025

کب ہوئی ختم رات یاد نہیں

 کب ہوئی ختم رات یاد نہیں

کیا ہوئی ان سے بات یاد نہیں

کب لٹا کارواں ستاروں کا

کب لٹی کائنات یاد نہیں

کیسے گزرے وہ بے خبر لمحے

کیسے گزری حیات یاد نہیں

کس نے جیتی ہے عشق کی بازی

کس نے کھائی ہے مات یاد نہیں

وہ کھلی زلف وہ کھلی باہیں

قید تھی یا نجات یاد نہیں

وہ مرا جشن نامرادی تھا

یا کسی کی برات یاد نہیں

کب ملے تھے کہاں ملے تھے وہ

فیض اتنی سی بات یاد نہیں


ابراہیم فیض

No comments:

Post a Comment