کب ہوئی ختم رات یاد نہیں
کیا ہوئی ان سے بات یاد نہیں
کب لٹا کارواں ستاروں کا
کب لٹی کائنات یاد نہیں
کیسے گزرے وہ بے خبر لمحے
کیسے گزری حیات یاد نہیں
کس نے جیتی ہے عشق کی بازی
کس نے کھائی ہے مات یاد نہیں
وہ کھلی زلف وہ کھلی باہیں
قید تھی یا نجات یاد نہیں
وہ مرا جشن نامرادی تھا
یا کسی کی برات یاد نہیں
کب ملے تھے کہاں ملے تھے وہ
فیض اتنی سی بات یاد نہیں
ابراہیم فیض
No comments:
Post a Comment