Sunday, 11 May 2025

روتے روتے چہرے پر کیا گزری ہے

 روتے روتے چہرے پر کیا گزری ہے

بستر پر اور تکیے پر کیا گزری ہے

تم سے تو ہر اشک چھپا لے آئے پر

ہم سے پوچھو چشمے پر کیا گزری ہے

جس رشتے کی خاطر حد سے گزرے ہم

ٹوٹا تو اس رشتے پر کیا گزری ہے

تم نے تو بے کار سمجھ کر پھینک دیا

پر سوچو اس جھمکے پر کیا گزری ہے

ساتھ چلا کرتے تھے جس پر دونوں اب

تنہا سے اس رستے پر کیا گزری ہے

سب نے موہن کی مجبوری ہی سمجھی

کس نے سمجھا رادھے پر کیا گزری ہے

گھر کو چھوڑ کے جانے والے کیا جانیں

گھر کے ایک اک کمرے پر کیا گزری ہے


شاد صدیقی

No comments:

Post a Comment