حادثوں نے دوستی صدیوں پرانی چھین لی
معترف تھی جس کی دنیا وہ کہانی چھین لی
میرے سر پہ سایہ دیکھا جب غمِ حالات کا
ایک کرم فرما نے اپنی مہربانی چھین لی
ہو بھلا تیرا زمانے تو نے میری ذات سے
ہر تمنا چھین لی،۔ ہر شادمانی چھین لی
جانے کیسے موسموں کی ہے چمن پر دسترس
پھول تو بخشے ہیں لیکن رُت سُہانی چھین لی
تُو نے یہ سوچا نہیں بے تاج ہو جانے کے بعد
تجھ سے کیوں قدرت نے تیری حکمرانی چھین لی
یوں ہوا جلوہ نما سورج ☀ نئی تہذیب کا
مجھ سے پُرکھوں کی مِرے ہر اک نشانی چھین لی
اس نے کچھ بے جان سے الفاظ دے کر اے مجیب
حوصلہ لُوٹا،۔ میری جرأت بیانی چھین لی
مجیب الرحمٰن شہزر
No comments:
Post a Comment