دل کو گِلہ خِرد سے کبھی کچھ جنوں سے ہے
سب شورِ شہرِ جاں میں تمہارے فسوں سے ہے
حیرت میں سب ہیں سطح سمندر کہ موجِ تُند
طوفاں جو یہ اٹھا ہے، اٹھا کس سکوں سے ہے
کب منحصر کسی پہ کسی کا ہے اب وجود
سر پر جو آسماں ہے لگا کس ستوں سے ہے
منظر بھی جب فراق کا ہو گا بھی کیوں وصال
کہنا کسی کا وصل تو ملتا شگوں سے ہے
جلتا ہے دل کہ آگ ہے سینے میں ضوفشاں
اٹھتا جو یہ دھواں ہے، کہاں اندروں سے ہے
گھبرا کے کوئی جائے جہاں سے بھی اب کہاں
گزرا نہ زندگی کا تماشہ سکوں سے ہے
رنگِ حنا تو بزم میں دیکھا ہر ایک نے
لیکن جو لب پہ تازگی یہ کس کے خوں سے ہے
شفیق ندوی
No comments:
Post a Comment