یہ جو دنیا ہے تغیر کی عجب وادی ہے
حکم دیتا تھا جو کل آج وہ فریادی ہے
یہ بھی احسان ہے قاتل کا تِرے ورثا پر
اس نے میت تِری دہلیز پہ پہنچا دی ہے
کیا ہوا لوگ اگر بات نہیں کر سکتے
شہر میں گھومنے پھرنے کی تو آزادی ہے
میں بہت رویا تھا تو ہنستے ہوئے بچھڑا تھا
تجھ میں اور مجھ میں یہی فرق تو بنیادی ہے
دیکھیے جیت ہو کس کی، وہ ستم پیشہ ہے
اور یہ دل بھی مصائب کا بہت عادی ہے
اس لیے تو مجھے برباد نہیں کر سکتا
مِری بربادی میں شامل تِری بربادی ہے
لگ رہا ہے مجھے رستے میں کہیں چھوڑے گی
دوستو! میری کہانی میں جو شہزادی ہے
لوگ غالب کو بھی کہنے لگے آدھا شاعر
پاس ہر شخص کے اب میر کی استادی ہے
تِری باتوں پہ یقیں کون کرے گا غزنی
شہر کا شہر اسی شوخ کا امدادی ہے
محمود غزنی
No comments:
Post a Comment