Saturday 5 September 2015

عقل کہتی ہے کوئی ڈھونڈ مفر کی صورت

عقل کہتی ہے کوئی ڈھونڈ مفر کی صورت 
دل یہ کہتا ہے بدل جائے گی گھر کی صورت 
کون رستے میں انہیں چھوڑ کے جا سکتا ہے
خواہشیں ہوتی ہیں سامانِ سفر کی صورت
آدمی، تاش کے پتے ہیں ترے ہاتھوں میں
اے خدا! تُو بھی تو ہے شعبدہ گر کی صورت
میری تر دامنئ چشم پہ یوں طنز نہ کر
میں صدف ہوں تو مرا دل ہے گہر کی صورت
اپنی ہی ذات کا اک دائرہ بُن رکھا ہے
اپنی گردش میں ہیں ہم لوگ بھنور کی صورت
جانے کس سمت یہ شوریدہ سری لے جائے
زد میں آندھی کی ہوں ٹوٹے ہوئے پر کی صورت
کون آیا سرِ صحرائے محبت، محسنؔ
ذرہ ذرہ مہک اٹھا، گلِ تر کی صورت

محسن احسان

No comments:

Post a Comment