Monday, 7 September 2015

میں زخم زخم رہوں روح کے خرابوں سے

میں زخم زخم رہوں روح کے خرابوں سے
تُو جسم جسم دہکتا رہے گلابوں سے
کسی کی چال نے نشے کا رس کشِید کیا
کسی کا جسم تراشا گیا شرابوں سے
صبا کا ہاتھ ہے اور ہے تِرے گداز کا لمس
میں جاگتا ہی رہوں گرم گرم خوابوں میں
قدم قدم ہے چکا چوند چاہتوں کا چراغ
میں شہرِ آئینہ، جلتا ہوں آفتابوں سے
عطاؔ بدن کی یہ کروٹ بھی نیم شب کیا تھی
تمام عمر اُجلتا ہوں انقلابوں سے

عطا شاد

No comments:

Post a Comment