Tuesday, 20 December 2016

راتوں کو دن سپنے دیکھوں دن کو بتاؤں سونے میں

راتوں کو دن سپنے دیکھوں دن کو بِتاؤں سونے میں
میرے لیے کوئی فرق نہیں ہے ہونے اور نہ ہونے میں
برسوں بعد اسے دیکھا تو آنکھوں میں دو ہیرے تھے
اور بدن کی ساری چاندی چھپی ہوئی تھی سونے میں
دھرتی تیری گہرائی میں ہوں گے میٹھے سوت مگر
میں تو صَرف ہُوا جاتا ہوں کنکر پتھر ڈھونے میں
گھر میں تو اب کیا رکھا ہے ویسے آؤ تلاش کریں
شاید کوئی خواب پڑا ہو اِدھر اُدھر کسی کونے میں
سائے میں سایہ الجھ رہا تھا چاہت ہو کہ عداوت ہو
دُور سے دیکھو تو لگتے تھے سورج چاند بچھونے میں

رئیس فروغ

No comments:

Post a Comment