زلف کی اوٹ سے چمکے وہ جبیں تھوڑی سی
دیکھ لوں کاش جھلک میں بھی کہیں تھوڑی سی
مے کدہ دور ہے، مسجد کے قریں، تھوڑی سی
میرے ساقی ہو عطا مجھ کو یہیں تھوڑی سی
نا خوشی کم ہو تو ہوتا ہے خوشی کا دھوکا
جھلکیاں ہاں کی دکھاتی ہے نہیں تھوڑی سی
پھر مِرے سامنے آ، اور حجابات اٹھا
زحمتِ جلوہ پھر اے پردہ نشیں! تھوڑی سی
ان کی ہر بات پہ میرا سرِ تسلیم ہے خم
ہر اشارے پہ جُھکاتا ہوں جبیں تھوڑی سی
میں یہ سمجھوں کہ مجھے مِل گئی جنت میں جگہ
ان کے کُوچے میں جو مل جائے زمیں تھوڑی سی
صحنِ گُلشن ہے، گُل و لالہ ہیں پیمانہ بہ دست
مِل کے پی لیتے ہیں اب آؤ، یہیں تھوڑی سی
ان کی قُربت کا وہ لمحہ ہی بہت ہے مجھ کو
گفتگو ان سے ہوئی تھی جو کہیں تھوڑی سی
ساقئ بزم! ادھر بھی ہو اُچٹتی سی نظر
ہے طلب مے کی، زیادہ تو نہیں تھوڑی سی
یوں بھی وہ ایک قیامت ہے دل و جاں کے لیے
جانے کیا ہو، جو مروّت ہو کہیں تھوڑی سی
عاقبت کوچۂ جاناں سے ہے وابستہ نصیر
یار سے ہم نے بھی مانگی ہے زمیں، تھوڑی سی
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment