ناموسِ وفا کا پاس رہا،۔ شکوہ بھی زباں تک لا نہ سکے
اندر سے تو روئے ٹوٹ کے ہم پر ایک بھی اشک بہا نہ سکے
ساحل تو نظر آیا لیکن طوفاں میں بلا کی شدت تھی
موجوں کو منایا لاکھ مگر ہم جانبِ ساحل آ نہ سکے
ہم کہتے کہتے ہار گئے اور دنیا نے کچھ بھی نہ سنا
جب دنیا نے اصرار کیا،۔ ہم اپنا درد سنا نہ سکے
کب ہم نے گلستاں چاہا تھا کب ہم نے بہاریں مانگیں تھیں
اک گل کی تمنا تھی ہم کو وہ بھی تو چمن میں پا نہ سکے
پروین فنا سید
No comments:
Post a Comment