Tuesday, 22 February 2022

حیران ہوں دو آنکھوں سے کیا دیکھ رہا ہوں

 حیران ہوں دو آنکھوں سے کیا دیکھ رہا ہوں

ٹوٹے ہوئے ہر دل میں خدا دیکھ رہا ہوں

نظروں میں تِری رنگ نیا دیکھ رہا ہوں

ہاتھوں میں بھی کچھ رنگ حنا دیکھ رہا ہوں

رخ ان کا کہیں اور نظر اور طرف ہے

کس سمت سے آتی ہے قضا دیکھ رہا ہوں

پھر لائی ہے برسات تری یاد کا موسم

گلشن میں نیا پھول کھلا دیکھ رہا ہوں

تو آئے نہ آئے مگر آتی ہے تِری یاد

یادوں میں تجھے آبلہ پا دیکھ رہا ہوں

یہ کیسی سیاست ہے مِرے ملک پہ حاوی

انسان کو انساں سے جدا دیکھ رہا ہوں

کاغذ پہ ہوئے میرے وطن کے کئی ٹکڑے

پنجاب کی بانہوں کو کٹا دیکھ رہا ہوں

تخلیق نہ سنبھلی تو بنے لوگ محقق

غالب کا ہوا حال یہ کیا دیکھ رہا ہوں

کل تک جو دیئے محفل یاراں میں تھے روشن

آج ان کو ستاروں میں چھپا دیکھ رہا ہوں


صابر دت

No comments:

Post a Comment