Tuesday, 22 February 2022

میں دشت زندگی کو چلا تھا نکھارنے

 میں دشت زندگی کو چلا تھا نکھارنے

اک قہقہہ لگایا گزرتی بہار نے

گزرا ہوں جب سلگتے ہوئے نقش چھوڑتا

دیکھا ہے مجھ کو غور سے ہر رہگزار نے

مے کش نے جام زہر ہی منہ سے لگا لیا

پاگل بنا دیا جو نشے کے اتار نے

انسان حد‌ نور سے آگے نکل گیا

چھوڑا مگر نہ اس کو لہو کی پکار نے

ان مہ رخوں کی ہم سے جو یہ بے رخی رہی

جانا پڑے گا چاند پہ کچھ دن گزارنے

کرتے ہیں وہ ستارے بھی اب مجھ پہ چشمکیں

چمکا دیا جنہیں مِری شب ہائے تار نے

ان گلکدوں کو بھی کوئی اے کاش دیکھتا

جھلسا ہے جن کو آتش فصل بہار نے

لاؤں کہاں سے ان کے لیے اور غم گسار

جو غم دئے ہیں مجھ کو مِرے غمگسار نے

میری سرشت میں تھی محبت کی پرورش

مجھ کو قلم دیا مِرے پروردگار نے

بخشا ہے اپنے حسن کا پرتو مجھے کرم

فطرت کے ہر جمیل و حسیں شاہکار نے


کرم حیدری

No comments:

Post a Comment