Friday, 2 September 2022

دور تک بس خون کے ٹھہرے ہوئے دریا ملے

 دور تک بس خون کے ٹھہرے ہوئے دریا ملے

مدتوں جاگی ہوئی آنکھوں کو دیکھا رو پڑے

احتراماً زندگی کو منہ لگانا ہی پڑا

ورنہ ہم اور زندگی کا زہر توبہ کیجیے

اپنے کاندھوں پر لیے اپنی کئی شخصیتیں

رات بھر آنکھوں کے جنگل میں بھٹکتے ہی رہے

چیختے چلاتے اندیشوں کی آنکھیں سرخ ہیں

جسم کی نا پختہ سڑکوں سے گزرنا چھوڑئیے

خون کے دھبوں کی سچائی ڈراتی ہی رہی

اپنے بارے میں کبھی سوچا تو گھبرانے لگے

ٹوٹے پھوٹے کالے شبدوں کے بھرے بازار میں

اس قدر خود کو گھمایا ہے کہ کالے پڑ گئے


انتخاب سید

No comments:

Post a Comment