Tuesday 25 July 2023

ہو گئے اس حادثے کو گو کہ چودہ سو برس

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


ہو گئے اس حادثے کو گو کہ چودہ سو برس

آج تک سینہ ہے چھلنی اور دل صد پارہ ہے

جو نفس سینے میں ہے، اک شمعِ ماتم خانہ ہے

آ رہی ہے کربلا کی خاک سے پیہم صدا

زندۂ جاوید ہیں جو لوگ، مر سکتے نہیں

سر سے لے کر پاؤں تک، اک نخل ماتم میں بھی ہوں

پھر بھی میں چُپ ہوں کہ مسلک ہے مِرا، صبرِ حسینؑ

یہ سُلگتی دُھوپ، لطفِ نمِ ابرِ حسینؑ

زندگی کے کرب کا سوزِ شگفتہ ہے حسینؑ

گُلشنِ جاں کی بہارِ نود میدہ ہے حسینؑ

رنگ کی دہلیز، خُوشبو کا دریچہ ہے حسینؑ

جس کو کہتے ہیں شہادت، ہے کلیدِ زندگی

کیوں بھلا روؤں، سمجھتا ہوں کہ زندہ ہیں حسینؑ

سارے آنسو، چشمِ خوں بستہ میں رکھے ہیں جمع

باندھ رکھی ہیں سب آہیں، دامنِ انفاس میں

زخم جتنے ہین، چُھپا رکھا ہے ان کو رُوح میں

اس توقع پر، کہ وہ جس دن، کہیں مل جائے گا

سارے آنسو، سارے شیون، ساری آہیں، سارے دکھ

ڈال دوں گا اس کے دامن میں، کہ اے جانِ فضا

لے، یہ میرے پاس صدیوں سے امانت تھی تِریؑ​


فضا ابن فیضی 

No comments:

Post a Comment