زعفرانی غزل
سہانی یاد کا دھوکا نہ خرچ ہو جائے
مِرا یہ آخری سکّہ، نہ خرچ ہو جائے
مجھے یہ شوق،، مِرا کم سخن کہے کچھ تو
اسے یہ فکر کہ جملہ نہ خرچ ہو جائے
گلاب سُوکھ نہ جائے کتاب میں رکھا
پسِ نقاب ہی چہرہ نہ خرچ ہو جائے
تمہاری آنکھ میں اس واسطے نہیں تکتے
ہماری پیاس پہ دریا نہ خرچ ہو جائے
مت ایسے اس کو سنبھالو کہ بھول ہی جاؤ
پڑے پڑے کہیں پورا نہ خرچ ہو جائے
آزاد حسین آزاد
No comments:
Post a Comment