Wednesday 3 July 2024

چاندنی رات ہے اور تنہائی ہے

 چاندنی رات ہے اور تنہائی ہے

مجھ سے رُوٹھا ہوا میرا ہرجائی ہے

وہ کسی اور کا ہے مجھے کیا گلہ

میرے حصے میں تقدیر کیا لائی ہے

میں سمندر کی لہروں سے ٹکرا گیا

زخم دل نے مِرے یوں شفا پائی ہے 

زلفِ جاناں ہو یا شب ہو مدراس کی

دِیدنی میرے دل کی شکیبائی ہے

اس نے آنکھوں میں دیکھا نہیں ڈوب کر

بحرِ ہندی سے کچھ کم نہ گہرائی ہے

دیکھ کر میں یہ حیرت زدہ رہ گیا

آج حیدر کی فطرت بھی مسکائی ہے


حیدر ندوی

No comments:

Post a Comment