Wednesday 3 July 2024

شب فراق میں رویا کیا سحر کے لیے

 شب فراق میں رویا کیا سحر کے لیے

ترس ترس گئیں آہیں مِری اثر کے لیے

الٰہی خیر سے اس کی خبر ملے مجھ کو

چُھری ہے تیز وہاں مرغ نامہ بر کے لیے

بجا ہے بوسے کا گر نیل بن گیا رُخ پر

یہی تو داغ مناسب تھا اس قمر کے لیے

مریض ہجر نے دی جان تیری غفلت سے

نہ آیا ایک دن او بے خبر خبر کے لیے

پیام اس بُت شیریں ادا کا جب لایا

بڑھا کے ہاتھ قدم ہم نے نامہ بر کے لیے

خیال زُلف میں دن رات ہم ہیں سرگرداں

ازل سے تھا یہی سودا ہمارے سر کے لیے

دُعائیں مانگنا ہوں جتنی مانگ لے وہبی

کُھلا ہے بابِ اجابت ابھی اثر کے لیے


وہبی لکھنوی

شیو پرشاد وہبی

No comments:

Post a Comment