عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جس وقت اک گروہِ شریر و جفا شعار
جباّر و قہر بار و ستم گار و ہرزہ کار
خود بین و خود فریب و خود آرا و خود شمار
باطل نواز و خانہ بر انداز و حق شکار
دامانِ صلح و جَیبِ اماں پھاڑنے لگے
ہر بام پر جُنوں کے علَم گاڑنے لگے
توڑے ہر ایک شاخ، نچوڑے ہر ایک پھول
دَلنے لگے علوم، کُھرچنے لگے عقول
ڈھانے لگے حقوق، دُھنکنے لگے اصول
بونے لگے ظُلوم، اُگانے لگے جُہول
کَھینے لگے نمائشِ جاہ و جلال کو
سَینے لگے تصورِ جنگ و جدال کو
محلوں میں جلوہ ریز ہوں ارزالِ خیرہ سر
عیّار رہزنوں کو ملے منصبِ خِضر
سِفلوں کی ہو نِشست سرِ تختِ سِیم و زر
اقطابِ روزگار کے بستر ہوں خاک پر
آئے اجل عوام کی جانوں کے واسطے
دنیا ہو صرف چند گھرانوں کے واسطے
جُہّال کی زبان پہ ہوں لن ترانیاں
اشرارِ خود غرض کو ملیں حکمرانیاں
برسیں حقیقتوں کی زمیں پر کہانیاں
کھانے لگیں عوام کا گودا گرانیاں
سِفلوں سے بھیک اہلِ سخا مانگنے لگیں
مرنے کی اہلِ علم دُعا مانگنے لگیں
پوشاکِ اصفیا کو لعیں سوندنے لگیں
اپنے کو ماہ و سال غلط گوندنے لگیں
کوندے ہر ایک سمت نئے کوندنے لگیں
کشتِ وفا کو اہلِ جفا روندنے لگیں
حد یہ کہ دَیر نعرہ لگا کر مصاف کا
کرنے لگے حرم سے تقاضا طواف کا
اس وقت فرض ہے کہ برائے مفادِ عام
اک مردِ حق پناہ اُٹھے بہرِ انتقام
پہلے کرے زباں سے ہدایت کا اہتمام
مانے نہ پھر بھی کوئی تو لے کر خُدا کا نام
پائے ہوس سے طاقتِ گُفتار کھینچ لے
سوئی ہوئی نیام سے تلوار کھینچ لے
ایسے ہی ایک دور میں اک مردِ حق پناہ
پروردگارِ ملت و پروردۂ الٰہ
گُلزارِ نُور و طُورِ خیابانِ مہر و ماہ
مولائے راہِ راست، شہنشاہِ کج کلاہ
سب عُقدہ ہائے اَنفس و آفاق کھول کر
آیا تھا کارزار میں تلوار تول کر
جوش ملیح آبادی
No comments:
Post a Comment