Tuesday 9 July 2024

اسم شبیر مری آنکھ کا نم کھینچتا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کھینچتا رہتا ہے سانسوں کو بہم کھینچتا ہے

اس کا احسان ہے سینے میں جو دم کھینچتا ہے

چودہ ناموں کاہی حلقہ مِرے قرطاس پہ ہے

دائرہ ایک ہی بس میرا قلم کھینچتا ہے 

خود بخود چلتی چلی جاتی ہوں میں کوئے نجف

با خدا کوئی تو ہے میرے قدم کھینچتا ہے

میں تو فطرت میں قلندر ہو فقیری میں ہوں خوش

اور ہوں گے وہ جنہیں جاہ و حشم کھینچتا ہے

درجب حد سے گزرتا ہے دلاسے کے لیے

اپنی جانب مجھے ایک سبز علم کھینچتا ہے

سر جھکائے میں چلی آتی ہوں ان کے در پہ 

میں کہیں پر ہوں مجھے بابِ کرم کھینچتا ہے

حوصلہ میرا بڑا ہے یا زمانے کا چلن

کب تلک دیکھیے یہ سب و شتم کھینچتا ہے

دین و دنیا میں توازن نہیں ہونے پاتا

کبھی کعبہ تو کبھی مجھ کو صنم کھینچتا ہے

تا قیامت نہیں رکنے کا یہ گریہ ثروت

اسمِ شبیرؑ مری آنکھ کا نم کھینچتا ہے


ثروت رضوی

No comments:

Post a Comment