فلسطین کی چیخ
کھلی فضا میں
خنک ہوا میں
بڑی گھٹن ہے
بڑی چبھن ہے
زمیں ہے اک بے سلاخ زنداں
فلک کی چادر بھی قہر ساماں
خموشیاں راج ہو گئی ہیں
صدائیں تاراج ہو گئی ہیں
جنم جنم سے
ستم کی داسی
لہو کی پیاسی
ہزارہا گولیاں فضا میں
الم کی بپھری ہوئی ہوا میں
قدم قدم سنسنا رہی ہیں
قضا کا جادو جگا رہی ہیں
عجیب کہرام کو بہ کو ہے
فضا میں بارود ہے، لہو ہے
ہلاکتیں ہی ہلاکتیں ہیں
قیامتیں ہی قیامتیں ہیں
مگر کہیں کچھ اثر نہیں ہے
کوئی صدا معتبر نہیں ہے
سماعتیں راکھ ہو چکی ہیں
بصارتیں خاک ہو چکی ہیں
ضمیر و احساس صید کر دو
ہماری سانسیں بھی قید کر دو
تابش الوری
No comments:
Post a Comment