Thursday 4 July 2024

فلسطین کی چیخ فضا میں بارود ہے لہو ہے

 فلسطین کی چیخ


کھلی فضا میں

خنک ہوا میں

بڑی گھٹن ہے

بڑی چبھن ہے

زمیں ہے اک بے سلاخ زنداں

فلک کی چادر بھی قہر ساماں

خموشیاں راج ہو گئی ہیں

صدائیں تاراج ہو گئی ہیں

جنم جنم سے

ستم کی داسی

لہو کی پیاسی

ہزارہا گولیاں فضا میں

الم کی بپھری ہوئی ہوا میں

قدم قدم سنسنا رہی ہیں

قضا کا جادو جگا رہی ہیں

عجیب کہرام کو بہ کو ہے

فضا میں بارود ہے، لہو ہے

ہلاکتیں ہی ہلاکتیں ہیں

قیامتیں ہی قیامتیں ہیں

مگر کہیں کچھ اثر نہیں ہے

کوئی صدا معتبر نہیں ہے

سماعتیں راکھ ہو چکی ہیں

بصارتیں خاک ہو چکی ہیں

ضمیر و احساس صید کر دو

ہماری سانسیں بھی قید کر دو


تابش الوری

No comments:

Post a Comment