Wednesday 3 July 2024

اچھے لوگو کیا بتلاؤں کب سے ہوں بیمار

❤ کشمیر ❤ 


اچھے لوگو کیا بتلاؤں کب سے ہوں بیمار

جب سے دریا خُشک ہوئے ہیں تب سے ہوں بیمار 

فطرت نے پانی کے رستے آپ بنائے ہیں 

رستے بدلیں گے تو چشمے سُوکھتے جائیں گے

چشمے خُشک ہوئے تو خوف کے بادل برسیں گے

پانی کم ہونے کا مطلب جنگوں کی بُہتات

پانی کے اک گُھونٹ کا مطلب ہو گا اک روٹی 

اک روٹی کا مطلب ہو گا اک بھُوکی عورت

پانی کی شریانیں کاٹنے والے قاتل ہیں 

جنگل اور چٹانیں کاٹنے والے قاتل ہیں 

وہ قاتل جو پانی اور ہوا کے قاتل ہیں 

انسانوں کی نسلوں اور بقاء کے قاتل ہیں 

کیسے دھرتی ماں روئے اور لوگو کو بتلائے

اس کو مارنے والے اس کے اپنے بیٹے ہیں 

چاندی جیسے دریا، گندے نالے بن جائیں 

آنکھیں پیلی ہوں، اور ہلکے کالے بن جائیں 

دو دریاؤں کے اس شہر میں ایسی حالت ہو

شہر کے باسی پانی مانگنے والے بن جائیں 

میرے پربت کاٹ کے لے جائیں گے ہمسائے 

میرے جنگل باندھ کے لے جائیں گے میرے دوست

ہائے، میرے ہمسائے اور ہائے میرے دوست

وائے، میرے ہمسائے اور وائے میرے دوست

کب سوچا تھا ہم پر ایسے دن بھی آئیں گے 

گھر میں بیٹھے لوگ مہاجر ہوتے جائیں گے 

ہم وہ ہیں جو اپنے پانی آپ خریدیں گے

ہم وہ ہیں جو اپنے جنگل آپ جلائیں گے 

کس کی کارستانی ہے، یہ کس کی کرنی ہے 

بجلی پیدا کرنی ہے، خود قیمت بھرنی ہے

ہم جو دودھ نہاتے، سونا دھونے والے تھے

دریاؤں کی لوری سُن کر سونے والے تھے

اب ہم اپنے آپ میں صحرا ہونے والے ہیں 

اب ہم دریاؤں کے دُکھ میں رونے والے ہیں

ریت کو جلتے آہیں بھرتے دیکھ رہے ہیں لوگ 

آنے والی پیاس سے ڈرتے دیکھ رہے ہیں لوگ 

دریاؤں کو گلتے سڑتے دیکھ رہے ہیں لوگ 

نیلم اور جہلم کو مرتے دیکھ رہے ہیں لوگ

جی کرتا ہے چیخیں ماروں سارے لوگ بُلاؤں

ریت میں ڈُوبنے والے دریاؤں کی جان بچاؤں 

ورڈزورتھ کے گلے لگوں اور اتنے اشک بہاؤں

یہیں کہیں اس شہر کے دل میں آنسُو جھیل بناؤں


واحد اعجاز میر

No comments:

Post a Comment